آپ بھی اپنے مشاہدات لکھیں، صدقہ جاریہ ہے۔ بے ربط ہی کیوں نہ ہوں ہم تحریر سنوار لیں گے
میاں جی امام الدین صاحب سے محلے کے ہر چھوٹے بڑے کو ہمدردی ہے۔ اس لئے کہ بغدادی قاعدے سے لے کر قرآن پاک اورخالق باری تک بچوں کی تعلیم،مسجد کی خدمت اور امامت بھی انہی کے سپرد ہے۔ پچھلے سال ان کی طبیعت خراب ہوئی۔ دائیں پسلی میں کیا تکلیف تھی، جو کبھی بڑھ جاتی کبھی کم ہو جاتی ایک ہفتہ یونہی ٹالتے رہے۔ جب بخار ہو گیا اور ہلکی ہلکی کھانسی اٹھنے لگی تو علاج شروع ہوا، وہ بھی اس طرح کہ کسی نے تارپین اور مالکنگنی کا تیل بتایا تو مل کر سینک لیا کسی نے قیروطی کا مفید ہونا ظاہر کیا تو ملا اور روہڑ باندھ لیا۔ کبھی گڑ کی چائے پیتے اور کبھی گیہوں کی بھوسی کا جوشاندہ۔ ایسی بہت سی تدابیر سے جب کوئی فائدہ نہ ہوا اور تکلیف بڑھتی ہی گئی تو شاگردوں اور نمازیوں کی وساطت سے یونانی اور ڈاکٹری علاج ہوئے، لیکن مرض جوں کا توں تھا۔
میں باوجود نمازی ہونے کے اتنا بد نصیب ضرور ہوں کہ مسجد میں جانے کا اتفاق اتفاقیہ ہی ہو جاتا ہے۔ اس لئے مجھے پورے سوا مہینے بعد میاں جی کی بیماری کی اطلاع ملی۔ دیکھا تو میاں جی واقعی بیمار، اور بہت کمزور تھے مسجد کا حجرہ ان کا قدیمی استھان تھا،جسے چھوڑنے پر وہ کسی طرح آمادہ نہ ہوئے۔ بغور معائنہ کرنے پر بات کچھ بے ڈھب سی نظر آئی اسلئے میں نے اپنے کئی مخلص حکیم اور ڈاکٹروں کو ان کے معائنہ کی غرض سے مسجد ہی میں بلوایا۔ اس مجلس شوری کے جلسہ میں جتنی بحث ہوئی اس کا خلاصہ تھا کہ ”پلورسی“ (ذات الجنب) ضرور ہے۔لیکن مرض کے ذریعے اور کیفیت پر اتفاق نہ ہونے کے باعث یہ طے پایا کہ مریض کا ایکسرے لیا جائے۔ میں نے اگلے ہی دن مراد آباد جا کر میاں جی کو ایک ڈاکٹر کے حوالے کر دیا۔ ایکسرے اور مکمل طبی معائنہ کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ جھلیوں میں پانی کی کافی مقدار موجود ہے جس کو نکالے بغیر مریض کے صحت یاب ہونے کی امید نہیں کی جا سکتی۔شام کے پانچ بجے تھے شفاخانہ کے صحن میں ہری ہری گھاس پر میاں جی لیٹے تھے اور میں انہیں ڈاکٹر کے مشورہ سے آگاہ کر کے پانی نکلوانے کے عمل پر رضا مند کر رہا تھا۔ میاں جی کی بوڑھی خالہ، ہونے والے عمل کی تفصیلات سن کر مجھ سے کچھ سوالات کر رہی تھیں کہ اتنے میں ڈاکٹر صاحب ہماری جانب آتے ہوئے نظر آئے۔ میں نے سوچا کہ ان کے ذریعے میاں جی اور بڑی بی کو مطمئن کرنا آسان ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب قریب آگئے تو میں نے کھڑے ہو کر سوال کیا کہ کل صبح ۸ بجے آپ جو عمل کریں گے اس میں کوئی خطرہ تو نہیں۔ یہ بڑی بی گھبراتی ہیں میں سمجھتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس سوال کے جواب میں نہیں کہیں گے۔“ جس سے میاں جی اور خالہ کو اطمینان ہو جائیگا۔ لیکن واہ رے صاف گو ڈاکٹر! انہوں نے بڑی متانت سے بتایا کہ یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ سن کر میاں جی اوران کی خالہ دونوں نے گھبراہٹ محسوس کی پھر اسی حد میں پہنچ گئے، جہاں سے میں ان کو کافی دور لے آیا تھا لیکن پھر بھی میں ڈاکٹر صاحب سے صبح ۸ بجے پانی نکلوانے کا وعدہ کر کے چلا آیاہم ڈاکٹر شانتی سروپ صاحب کے ہاں ٹھہرے تھے۔اسپتال سے لوٹتے وقت خالہ بھانجے ایک رکشا میں آئے اور میں دوسری میں۔ راستے میں میاں جی کو ایک مبارک حادثہ پیش آیا”مرتے کو ماریں شاہ مدار“ چند غضب ناک لال بھڑوں (زنبور سرخ) نے ہلہ بول کر غریب کو اس بری طرح کاٹاکہ گیارہ بجے تک بے چینی رہی۔ صبح کو میں نے جس طرح بھی ہو سکا، رضا مند کر کے میاں جی کو آپریشن روم میں پہنچا ہی دیا۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر صاحب آپریشن روم سے باہر آئے اور فرمایا”حکیم صاحب آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں! ”میں نے کہا:”صاحب کیسا مذاق، میں سمجھا نہیں، آپ کا مطلب کیا ہے؟“ اس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا”یہ کل والا مریض ہرگز نہیںہو سکتا آپ کوئی دوسرے آدمی کو لائے ہیں، اس کو بہت بڑا مرض تھا اور یہ بالکل اچھا ہے۔ وہ دبلا تھا اور یہ موٹا۔“ہر چند یقین دلانے کے بعد بھی ڈاکٹرکی رائے میں تبدیلی نہ ہوئی، میری آخری صفائی یہ ہو سکتی تھی کہ میں میاں جی کے دوبارہ ایکسرے لینے پر اصرار کروں، جب ایکسرے کی نئی کاپی نے بھی میاں جی کو قطعی طور پر تندرست ظاہر کیا تو بیک وقت میری ندامت،ڈاکٹر صاحب کاغصہ، میاں جی کی صحت اور ان کی خالہ کی خوشی قابل دید تھی!(حکیم سید خالد اکبر خالد۔ چاند پوری)
پچھلی جنگ عظیم کا ذکر ہے۔ رنگون پر جاپانیوں کی گولہ باری ہو رہی تھی۔ شہر ویران پڑا ہوا تھا۔ لوگ جانیں بچا بچا کر بھاگ گئے تھے۔ اکثر ہندوستانیوں نے بھی ہندوستان کا راستہ اختیار کیا ہوا تھا۔، جنگل،بیابان ااور اونچی اونچی پہاڑیوں سے لوگ باپیادہ سفر کر رہے تھے۔ بھوک سے مجبورہو کر انسان درختوں کے پتے اورجڑیں کھاتا اور پانی نہ ملنے پر پوکھروں کا سڑا ہوا پانی پیتا۔ اسی حالت میں جانیں ضائع ہو گئیں، کتنے ہی لٹ گئے اور کتنے ہی راستہ بھٹک گئے۔ ہماری ٹولی میں گیارہ آدمی تھے۔ ہم سب یوپی کے رہنے والے تھے۔ ایک دن جب ہم ناگاساکی پہاڑیوں سے گزر رہے تھے۔ ہم نے ناگا لوگوں کی ایک بستی میں قیام کیا۔ اس وحشی قوم نے ہم لوگوں کا خیر مقدم کیا۔ ایک ہرن شکار کر کے کھلایا اور ٹھہرنے کے لیے ایک جھونپڑی خالی کر دی۔ آدھی رات گئے ہم اپنے ایک ساتھی کی چیخ سن کر اٹھ بیٹھے۔ ہمارے عزیز ساتھی رام سنگھ کے پاﺅں کو کسی جانور نے کاٹ کھایا تھا۔ ٹارچ کی روشنی میں جب جھونپڑی میں تلاش کی گئی تو دیکھا کہ ایک کالا سانپ ایک کونے میں پھن پھنا رہا ہے، فوری اسے ماڑ ڈالا گیا لیکن اپنے ساتھی کی جان جاتے دیکھ کر ہمیں صدمہ ہو رہا تھا۔ ایک کوبرے کا کاٹا ہواکیسے بچ سکے گا! ہم لوگ مایوس تھے۔ پھر بھی بیرونی تدابیر وغیرہ کرتے ہوئے میں نے چند مضبوط گرہیں زخم کے اوپر لگا دیں اور چاقو سے زخم چاک کر کے تھوڑا خون نکال دیا۔ اس وقت میں خالی ہاتھ تھا، کوئی دوا بھی ساتھ نہ تھی، جو مار گزیدہ کردیتے۔ جہاں تک ہو سکا ہم نے مریض کو نیند کے غلبہ سے باز رکھا۔ اتنے عرصے میں ہمارے میزبان ناگا کو جونزدیک کی جھونپڑی میں رہتا تھا، اطلاع ہو چکی تھی۔ اس نے فوراً تسلی دی اور دوڑا ہوا باہر چلا گیا۔ چند منٹ بعد وہ اپنے بوڑھے سردار کے ہمراہ واپس آیا۔ سردار کے کندھے پر ہرن کے کھال کی ایک جھولی تھی۔ بڈھے نے آتے ہی ایک سبزی مائل سخت چیز پانی کے ساتھ پتھر پر گھسنی شروع کی اور تین تولے گھس کر پانی کے ہمراہ مریض کے حلق میں اتار دی۔ بڈھا سردار غنودگی کے عالم میں تھا اور جیسے وہ وہاں رکنا نہیںچاہتا تھا۔ اس نے جھولی سنبھالی اور جھونپڑی سے باہر چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد مریض پسینہ سے شرابور تھا۔ اس کا بدن ٹھنڈا تھا اور نبض آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ ہم نے سمجھا اس کا آخری وقت قریب آ رہا ہے۔ پھر اس نے آنکھیں بند کر لیں اور دھیرے دھیرے خراٹے لینے لگا۔ ہم لوگوں نے رات آنکھوں میں کاٹی کہ دیکھئے اس کے بعد کیا ہوتا ہے۔سپیدہ سحرہ نمودار ہو رہا تھا۔ مریض نے ایک زور دار انگڑائی لی اور آنکھیں کھول دیں۔ وہ کافی ضعیف معلوم ہو رہا تھا۔ ہم نے اسے چپ چاپ رہنے اور آرام کرنے کی ہدایت کی۔ دوپہر کے وقت بوڑھا سردار پھر آیا۔ اس نے ایک پودے کی جڑ مریض کو چوسنے کیلئے دی۔ یہ اسے تقویت پہنچانے کیلئے تھی۔ہم لوگوں کو یقین ہو گیا تھا کہ مریض خطرے سے باہر ہے۔ اس کو آرام دینے کیلئے چند دن وہاں ٹھہرنا مناسب سمجھا گیا۔ اس دوران میں نے اپنا شکاری چاقو اظہار تشکر کے طور پر بڈھے سردار کی نذر کیا، جو اس نے بہت اصرار کے بعد قبول کر لیا۔ میں نے اس سے تھوڑی سی سبز دوا بہت لجاجت سے طلب کی، لیکن ہزار خوشامد پر بھی اس نے میری ایک نہ سنی۔ اس کا جواب تھا کہ”یہ صرف اسی کو دی جاتی ہے جسے سانپ نے کاٹا ہو“ میں نے اس سے دوا کا نام و پتہ وغیرہ معلوم کرنا چاہا لیکن بڈھا سردار کسی بات کے بتانے پر رضا مند نہ ہوا۔ اس کی ہٹ دھرمی سے ہم لوگوں کو بہت مایوسی ہوئی۔ صبح سویرے ہی ہم سب پھر اپنے دشوار گزار راستے پر گامزن ہو گئے۔ دور ناگا لوگ ناچ ناچ کر اور ڈھول بجا بجا کر ہماری رخصتی کی رسم ادا کر رہے تھے۔ ہم لوگوں نے بھی ایک ٹیلے پر سے سفید رومال ہلاتے اپنی آخری جھلک دکھائی اور نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں